Madrasah Sayidina Zayd Bin Sabit
حضرت سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ انصاری صحابی ہیں، بڑے فقیہ اور کاتب وحی ہیں۔
نام ونسب و ابتدائی حالات
نام: زید…کنیت: ابو سعید، ابوخارجہ، ابو عبد الرحمٰن… القاب: مقری، کاتب خلفاء، حبر الامۃ۔
قبیلہ خزرج کے خاندان نجار سے ہیں۔ نسب نامہ اس طرح ہے:
“زید بن ثابت بن ضحاک بن زید بن لوذان بن عمرو بن عبد بن عوف بن غنم بن مالک بن نجار”
والدہ کا نام نوار بنت مالک بن معاویہ بن عدی تھا، جو حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے خاندان سے تھیں۔
انصار میں اسلام سے پہلے جو لڑائیاں ہوئی تھیں ان میں یوم بعاث سب سے زیادہ مشہور ہے، حضرت زید رضی اللہ عنہ کے والد اسی لڑائی میں قتل ہوئے۔ یہ واقعہ ہجرت سے 5 سال قبل کا ہے اس وقت حضرت زید رضی اللہ عنہ کی عمر کل 6 برس تھی۔ آپ رضی اللہ عنہ والدہ کے ظل عاطفت میں پرورش پاتے رہے، 11 برس کے ہوئے تو اسلام کی آواز کان میں پڑی۔
اسلام
آپ رضی اللہ عنہ نے 11 سال کی عمر میں اس وقت اسلام قبول کیا جب ابھی مدینہ میں اسلام نیا نیا آیا تھا، اور حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ مدینہ طیبہ میں اسلام کی دعوت و تعلیم پر مامور تھے۔
غزوات میں شرکت
سن 2 ھ میں جب غزہ بدر پیش آیا اس وقت آپ رضی اللہ عنہ کی عمر 13 سال تھی۔ آپ رضی اللہ عنہ بچوں کی ایک جماعت کے ہمراہ رسول اللہﷺ کے رو برو پیش ہوئے، آپﷺ نے ان کی کم سنی پر نظر فرما کر واپس کر دیا۔ غزوۂ احد کی شرکت کے متعلق بھی اختلاف ہے، بعض کا خیال ہے کہ غزوۂ خندق جو 5ھ میں واقع ہوا تھا وہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا پہلا غزوہ تھا، اس وقت ان کی عمر 16 سال تھی۔ آپ رضی اللہ خندق کھودنے والی جماعت میں شامل تھے اورمٹی نکال نکال کر باہر لاتے تھے، آنحضرتﷺ کی نظر پڑی تو فرمایا: “کیسا اچھا لڑکا ہے؟” اسی دوران اتفاق سے آپ رضی اللہ عنہ کو نیند آگئی، حضرت عمارہ بن حزم رضی اللہ عنہ نے دیکھا تو مذاق سے ان کے ہتھیار اتار لیے، اور آپ رضی اللہ عنہ کو پتہ نہ چلا۔ آنحضرتﷺ پاس ہی موجود تھے، مزاحاً فرمایا:
“قم یا ابارقاد”
“یعنی اے نیند کے باپ! اٹھ۔” اور لوگوں کو منع فرمایا کہ اس قسم کا مذاق نہ کیا کریں۔ غزوۂ تبوک میں آپ کے قبیلہ مالک بن نجار کا علم حضرت عمارہ بن حزم رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تھا، بعد میں آنحضرت ﷺ نے ان سے لے کر آپ رضی اللہ عنہ کو عطا فرمایا۔ عمارہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:
“یا رسول اللہ! مجھ سے کون سی خطاء ہوئی؟”
فرمایا:
” کچھ نہیں، مجھے قرآن کا لحاظ مد نظر ہے، زید تم سے زیادہ قرآن پڑھ چکے ہیں۔”
جنگ یمامہ میں بھی آپ رضی اللہ عنہ شامل تھے اور اس جنگ میں آپ کو ایک تیر بھی لگا تھا۔
اعمال عظیمہ
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی عظیم الشان زندگی بہت سے مفاخر اور اعمال عظیمہ کا مجموعہ ہے، جن کی مختصر تفصیل حسب ذیل ہے:
(1) کتابت وحی
آنحضرتﷺ نے وحی لکھنے کے لئے مختلف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مامور فرمایا تھا، ان میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا نام نامی نہایت ممتاز تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ قلم، دوات، کاغذ، چوڑی ہڈی یا پتلے پتلے پتھر لے کر رسول اللہﷺ کے پاس بیٹھ جاتے تھے
(بخاری:2/48،باب القرآن)
جب وحی آتی آپ صلی اللہ علیہ وسلم تلاوت فرماتے جاتے اور آپ رضی اللہ عنہ لکھتے جاتے، جہاں کہیں تحریر کے متعلق کوئی خاص ہدایت دینا ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرمادیتے اورزید رضی اللہ عنہ اس کی تعمیل کر دیتے۔
(2) حفظ قرآن
حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں بہت سے صحابہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں ہی “حفظ قرآن” کی سعادت پا چکے تھے، ان حفاظ کرام میں ایک روشن نام حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا ہے۔
(3) جمع قرآن
قرآن مجید اسلام کا اصل الاصول ہے،اس کے جمع کرنے کا فخر جس مقدس انسان کو حاصل ہوا وہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ہی ہیں۔ آنحضرتﷺ کے زمانہ تک قرآن مجید ہڈی، کھال، کھجور کی شاخ اور مسلمانوں کے دلوں میں محفوظ تھا۔ آنحضرت ﷺ کی رحلت کے بعد عرب کا ایک گروہ مرتد ہو کر مسیلمہ کذاب سے مل گیا جس نے یمامہ میں نبوت کا دعویٰ کیا تھا، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کے خلاف لشکر کشی کی اور مسیلمہ شکست کھاکر مارا گیا، لیکن اس غزوہ میں 70 حفاظ صحابہ نے جامِ شہادت نوش کیا۔ اس بنا پر حضرت سیدنا صدیق اکبر و سیدنا عمر فاروق اور دیگر کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طویل مشاورت اور غور و خوض کے بعد قرآن کریم کو ایک جگہ جمع کرنے کا فیصلہ ہوا، تاکہ قرآن کریم ایک مجتمع شکل میں محفوظ ہو جائے۔ اس عظیم کام کی زمہ داری حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے سپرد کی گئی، آپ رضی اللہ عنہ ابتداء اس بھاری ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے سے یہ کہہ کر معذرت کرتے رہے کہ جو کام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں نہیں ہوا وہ اب کیسے کیا جائے۔ لیکن بعد ازاں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے سمجھانے سے قائل ہو گئے۔(مسند:5/188،وبخاری:2/745)۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اس کام کے لیے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک جماعت بھی آپ رضی اللہ عنہ کے ساتھ مامور فرمائی، جن کی تعداد 75 تک بیان کی جاتی ہے، ان میں حضرت ابی بن کعب اور حضرت سعید بن عاص رضی اللہ عنہما بھی تھے۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے اس جماعت کے ساتھ مل کر طویل محنت اور جد و جہد کر کے انتہائی حزم و احتیاط کے ساتھ جمع قرآن کا کارنامہ سر انجام دے دیا۔ یہ آپ رضی اللہ عنہ کا امت پر اتنا بڑا احسان ہے جس کا بدلہ تاقیامت نہیں چکایا جا سکتا۔
(4) نشر قرآن
عہد عثمانی میں جب اختلاف قرأت رونما ہوا، تو حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ قبل اس کے کہ اسلام میں یہود و نصاریٰ جیسا اختلاف پیدا ہو، آپ اس کا جلد تدارک کیجئے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی اس ضرورت کو محسوس کیا اورحضرت زید رضی اللہ عنہ کا لکھا ہوا مصحف حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے طلب فرمایا، اور چار بزرگوں کو جن میں ایک حضرت زید رضی اللہ عنہ بھی تھے کتابت قرآن پر مامور فرمایا۔ ان بزرگوں نے مصحف صدیقی کی پانچ نقلیں تیار کیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان نقول کو مختلف ممالک اسلامیہ میں بھجوا کر ان کی اتباع کو لازمی قرار دیا اورمصحف صدیقی واپس حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس محفوظ کرا دیا۔ (بخاری باب جمع القرآن:746)
(5) امارت مدینہ منورہ
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ میں علمی و دینی کمالات کے ساتھ ساتھ انتظامی قابلیت بھی خوب تھی اوران پر اتنا اعتماد کیا جاتا تھا کہ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ جب مدینہ منورہ سے سفر پر تشریف لے گئے تو پیچھے اپنا جانشین انہی کو مقرر فرمایا،حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بھی یہی طرزِ عمل رہا، وہ جب حج کو مکہ معظمہ روانہ ہوتے تو حضرت زیدبن ثابت رضی اللہ عنہ کوبار ِخلافت سپرد کر جاتے تھے۔ خلافت فاروقی میں آپ رضی اللہ عنہ کو تین مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ہم نشینی کا فخر حاصل ہوا۔ 16ھ اور 17ھ میں دو مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حج کے موقع پر تیسری مرتبہ ان کے شام کے سفر کے زمانہ میں، شام پہنچ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب آپ کو خط لکھا تو اس میں آپ رضی اللہ عنہ کا نام اپنے نام سے پہلے تحریر فرمایا یعنی “الی زید بن ثابت من عمر بن الخطاب” ہر دفعہ آپ رضی اللہ عنہ نے خلافت کی ذمہ داریوں کو نہایت ہوشیاری اور مستعدی سے انجام دیا، حضرت عمر ِ فاروق رضی اللہ عنہ ان کے انتظام سے بہت خوش ہوتے تھے۔(سیر اعلام النبلاء، 2:434)
(6) اصلاحِ امت
رسول اللہ ﷺ کے وصال کے ساتھ ہی خلافت کا مسئلہ پیش آیا، سقیفہ بنی ساعدہ میں تمام انصار جمع تھے اور رئیس انصار حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ مجلس کے صدر نشین تھے، انہی کے انتخاب پر اکثر لوگوں کی آراء آ رہی تھیں، انصار کی بڑی جماعت ان کی تائید میں تھی، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی جلسہ میں موجود تھے، جب حضرت سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ، حضرت سیدنا عمررضی اللہ عنہ، اور حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ سقیفہ میں پہنچے اور مہاجرین کی طرف سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خلافت کی بات شروع فرمائی تو سب سے پہلے جس انصاری صحابی نے ان کی تائید فرمائی وہ حضرت سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ تھے۔ انصار کی آراء مکمل ہونے کے بعد انہوں نے ایک مختصر مگر پرمعنٰی گفتگو فرمائی، جس کا ایک فقرہ یہ تھا:
إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ وَإِنَّمَا الْإِمَامُ يَكُونُ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ وَنَحْنُ أَنْصَارُهُ كَمَا كُنَّا أَنْصَارَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ(مسند احمد،باب حدیث زید بن ثابت عن النبی ﷺ،حدیث نمبر:20631)
“یعنی رسول اللہ ﷺ مہاجرین میں سے تھے اس لیے امام کا انتخاب بھی مہاجرین میں سے ہونا چاہیے اور ہم اس کے انصار رہیں گے جس طرح کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے انصار تھے۔”
اس کے بعد حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: “میں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔”
(7) عبرانی اور سریانی زبان میں مہارت
آنحضرتﷺ کے مدینہ تشریف لانے کے بعد سلاطین و والیان کے خطوط وقتاً فوقتاً موصول ہوتے تھے جو اکثر سریانی زبان میں ہوتے تھے، مدینہ منورہ میں سریانی جاننے والے صرف یہود تھے،جن کو اسلام سے شدید بغض وعناد تھا، اس بناء پر مصلحت اور دور اندیشی کا تقاضا تھا کہ خود مسلمان اس زبان کو سیکھیں۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نہایت ذکی اور فطین تھے، 5ھ میں آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ میرے پاس لوگوں کے خطوط آتے ہیں جن کو میں کسی پر ظاہر نہیں کرنا چاہتا، علاؤہ ازیں مجھے یہود پر اطمینان بھی نہیں، اس لیے بہتر ہے کہ تم عبرانی زبان سیکھ لو، چنانچہ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے صرف 15 دن میں عبرانی اور سریانی زبان میں اس قدر مہارت حاصل کر لی کہ خطوط پڑھ لیتے اور جواب لکھ دیتے تھے۔ (مسند:5/186)
(8) کتابت
ان کی اسی ذہانت اور علم کی بناء پر آنحضرت ﷺ نے ان کو کتابت کے عہدہ پر سرفراز فرمایا تھا،جس پر وہ آنحضرت ﷺ کی وفات تک فائز رہے۔ حضرت ابوبکر و حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے عہدِ خلافت میں بھی ان کا یہ منصب بدستور رہا، لیکن اب کام کی کثرت ہو گئی تھی اس لیے حضرت معیقیب دوسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے مددگار مقرر کیے گئے۔
(9) عہدۂ قضاء
حکومت اسلامیہ کا ایک جلیل القدر منصب “منصب قضاء” ہے، جو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد میں قائم ہوا، آنحضرت ﷺ اورحضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ تک اس محکمہ کا مستقل وجود نہ تھا، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی بنیاد رکھی، اورحضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مدینہ کا قاضی مقرر فرمایا ،طبقات ابن سعد اور اخبار القضاۃ میں ہے:
إنّ عمر استعمل زیدا علی القضاء وفرض له رزقا۔
(سیر اعلام النبلاء 2/ 435)
“یعنی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت زید رضی اللہ عنہ کو قاضی بنایا اوران کی تنخواہ مقرر فرمائی۔”
اس وقت تک قاضی کے لیے عدالت کی عمارت تعمیر نہیں ہوئی تھی، اس لیے حضرت زیدبن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا گھر دار القضاء کا کام دیتا تھا، مکان فرش سے آراستہ تھا، حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فیصلہ کے وقت اسی میں متمکن ہوتے تھے، دار الخلافۃ اور تمام قرب وجوار کے مقدمات حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آتے تھے، یہاں تک کہ خود خلیفۂ وقت (حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ) پر بھی یہاں دعوے داخل کیے جاتے تھے اوراس کا فیصلہ بھی یہیں ہوتا تھا۔
(10) بیت المال کی نگرانی
ممالک اسلامیہ میں بہت سے مقامی بیت المال قائم تھے، اور ان کے اوپر مرکزی بیت المال۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس پورے شعبے کے مرکزی ذمہ دار اور نگران تھے، یہ عہدہ 31ھ میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو تفویض فرمایا تھا۔
(11) مجلس شوریٰ کی رکنیت
حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں انصار و مہاجرین کے ممتاز اصحاب کی جو مجلسِ شوریٰ تھی، حضرت زیدبن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اس کے ایک رکن تھے، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے عہدِ خلافت میں اسی جماعت کو باضابطہ کونسل قرار دیا تھا اورحضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کے بھی ممبر تھے۔
(12) خانگی حالات اور اہل و عیال
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خانگی زندگی نہایت پر لطف تھی۔ ان کی اہلیہ کا نام جمیلہ اور کنیت ام سعد اور ام العلاء تھی، مشہور صحابی حضرت سعد بن ربیع انصاری رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی تھیں اورخود بھی صحابیہ تھیں۔ حضرت زیدبن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد میں سے ایک بیٹے حضرت خارجہ جو سب سے زیادہ مشہور ہوئے اور فقہائے سبعہ میں سے ہوئے، انہی زوجہ محترمہ حضرت جمیلہ رضی اللہ عنہا ہی کے بطن سے تھے۔ حضرت زیدبن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دوسرے بیٹے اور پوتے بھی اپنے زمانہ میں مشہور اور علم حدیث میں مرجع الخلائق تھے۔
(سیر اعلام النبلاء 2/428)
(13) علم و فضل
قرأت ،فرائض، قضاء اورفتویٰ میں آپ رضی اللہ عنہ نہایت ممتاز شان رکھتے تھے۔ قرآن مجید میں علماء کی شان یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ راسخین فی العلم ہوں، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ راسخ فی العلم تھے، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو صحابہ میں دریائے علم کہلاتے تھے حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو راسخین فی العلم شمار فرمایا کرتے تھے۔
(سیر اعلام النبلاء2/ 437)
(14) قرأت
اسلام نے جن علوم وفنون کی بنیاد رکھی، ان میں قرأت ایک ممتاز علم ہے، حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس فن سے جس قدر شغف تھا اس کا اعتراف حضرات صحابہ و تابعین رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں سے ہر ہر فرد کرتا ہے۔ امام شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرائض کی طرح قرأت میں بھی تمام صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے فوقیت لے گئے تھے۔
(سیر اعلام النبلاء 2/ 432)
حضرت زیدرضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جو قرأت قائم ہوئی، وہ 14 صدیاں گذرنے پر بھی باقی ہے، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما، ابوعبدالرحمٰن سلمی، ابو العالیہ ریاحی، ابو جعفر، یہ سب آپ رضی اللہ عنہ کے شاگرد تھے، اور آج تک روئے زمین کی کروڑوں مسلمان معنوی طور سے ان کے آستانہ پر زانوے تلمذ تہ کرتے ہیں۔
(15) حدیث
قرآن کے بعد حدیث نبوی کا درجہ ہے،حضرت زیدبن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ اگرچہ اور بزرگوں کی طرح کثیر الروایہ نہ تھے، تاہم فن حدیث میں ان کا امتیاز یہ ہے کہ درایت سے کام لیتے تھے، حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں سے بیان کیا تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے کھیت کرایہ پر اٹھانے کی ممانعت فرمائی ہے، حضرت زیدبن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سنا تو فرمایا:
“اللہ تعالیٰ رافع بن خدیج کی مغفرت کرے، مجھے ان سے زیادہ اس روایت کی حقیقت معلوم ہے، واقعہ یہ تھا کہ دو شخص آپس میں جھگڑ رہے تھے، آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ اگر یہی حالت ہے تو کھیتوں کو کرایہ پر نہ اٹھانا چاہیے، رافع نے صرف اخیر کا ٹکڑا سن لیا۔(مسند:5/182)
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زیادہ تر روایات بلاواسطہ آنحضرتﷺ سے ہیں، اور حضرت ابوبکر،حضرت عمر اورحضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے بھی روایت کی ہے۔ آپ کے تلامذہ کی ایک بڑی جماعت ہے، جن میں سے چند حضرات کے نام یہ ہیں: حضرت انس بن مالک، حضرت ابوہریرہ، حضرت ابو سعید خدری ،حضرت سہل بن حنیف، حضرت ابن عمر، حضرت سہل بن سعد، حضرت عبداللہ بن یزید خطمی اور ام سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہم۔
اور تابعین میں سے سعید بن مسیب، قاسم بن محمد بن ابی بکر، ابان بن عثمان، خارجہ بن زید، سہل بن ابی حثمہ، ابو عمرو، مروان بن حکم ،عبید بن سباق، عطاء بن یسار، بسر بن سعید، حجر مدری، طاؤس،عروہ، سلمان بن زید، ثابت بن عبید رحمہم اللہ تعالیٰ ۔
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مرویات کی تعداد 92 ہے، جن میں سے 5 متفق علیہ ہیں۔ مرویات کی تعداد کا کم ہونا روایت حدیث میں آپ رضی اللہ کی سخت احتیاط کی وجہ سے ہے، ورنہ آپ رضی اللہ عنہ اکثر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر رہتے تھے، اور آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہزاروں احادیث طیبہ سنی ہیں۔
(16) علم فرائض و علم میراث
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو علم الفرائض یعنی علم میراث میں خصوصی کمال حاصل تھا، اس علم میں آپ رضی اللہ عنہ کے کمال کامل کی سب سے بڑی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی ہے:
أفرض أمتي زید بن ثابت۔
(سنن الترمذي:3790)
“میری امت کے سب سے بڑے فرائض داں زید بن ثابت ہیں۔”
(17) فقہ و فتاوی
فرائض کی طرح فقہ میں بھی آپ رضی اللہ عنہ خصوصی درک رکھتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کا شمار مجتہدین صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں ہوتا تھا۔ رسول اللہ ﷺکے عہدِ مبار ک میں فتوی ٰکی مسند پر فائز رہے، اور پھرحضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی خلافتوں میں بھی آپ مدینہ منورہ کے مفتیٔ اعظم تھے۔ فقہاء صحابہ کے تین طبقات ہیں۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاشمار پہلے طبقے میں ہوتا تھا، آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی زندگی میں جو فتاویٰ صادر فرمائے، ان کی تعداد بہت زیادہ ہے، اگر ان سب کو ایک جگہ جمع کر دیا جائے تو کئی ضخیم جلدیں تیار ہو سکتی ہیں۔ (أعلام الموقعین،جلد2،قسم)
حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فقہ ان کے زمانہ ہی میں قبول عام کی سند حاصل کر چکی تھی،حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ کہا کرتے تھے کہ زید بن ثابت کا کوئی قول ایسا نہیں جس پر لوگوں نے بالاجماع عمل نہ کیا ہو، صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں سینکڑوں ایسے تھے جن کے قول پر کسی نے عمل نہیں کیا، لیکن حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فتووں پر ان کی زندگی ہی میں مشرق و مغرب عمل پیرا تھے۔(أعلام المؤقعين ، ابن قیم جوزی:3)
لوگوں کا خیال ہے کہ علم فقہ کی شہرت و وسعت کا باعث صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں چار بزرگوں کی ہستیاں تھیں۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما۔ چنانچہ انہی کے تلامذہ سے آفاق عالم میں علم دین کی اشاعت ہوئی۔ لیکن مدینہ منورہ جو اسلام کا سرچشمۂ اصلی اور نبوت کا دارالقرار تھا، وہ حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور آپ کے اصحاب کی بدولت علوم وفنون کا مرکز بنا تھا۔
فقہائے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دو مجلسیں تھیں ایک کے رئیس حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے اور دوسرے کے حضر ت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضر ت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مجلس میں شریک تھے، ان مجلسوں میں مسائلِ علمیہ پر بحث ہوتی تھی اور اہم اور مشکل مسائل حل کیے جاتے تھے۔
(طبقات ابن سعد)
(18) حساب
عرب میں حساب کتاب کا رواج نہیں تھا، اس لیے اسلام کے ابتدائی زمانہ میں خراج کا حساب رومی یا ایرانی کرتے تھے، عربوں کو ہزار سے اوپر گنتی بھی معلوم نہ تھی، لیکن حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حساب کتاب میں کافی مہارت حاصل تھی، فرائض کے پیچیدہ سے پیچیدہ مسائل حل فرما لیتے تھے اور مال غنیمت کی تقسیم بھی فرمایا کرتے تھے۔ غزوۂ حنین میں جو 8ھ میں ہوا تھا اور جس میں لگ بھگ 12 ہزار افراد شریک تھے، ان کی گنتی اور ان کے حصوں کے مطابق مال غنیمت آپ رضی اللہ عنہ نے تقسیم فرمایا تھا۔
(طبقات ابن سعد،صفحہ110،قسم1)
جنگ یرموک کا مال غنیمت بھی جب مدینہ طیبہ آیا تو حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی نے تقسیم فرمایا تھا۔
(سیر اعلام النبلاء، 2: 427)
(19) اخلاق و عادات
اسلام مکارم ِاخلاق کی تکمیل کے لئے آیا ہے۔ حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اخلاق کریمہ جن محاسن و فضائل کا مجموعہ تھے ان میں حب رسول، اتباع رسول، امر بالمعروف، نصح امراء اور حمیت دینی بہت نمایاں ہیں۔ آنحضرت ﷺ کی محبت ہی کی بناء پر حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ دربار نبوت میں اکثر حاضر باش رہتے تھے، صبح کو بستر خواب سے اٹھ کر سیدھے آنحضرتﷺ کی خدمت میں آجاتے، بسا اوقات اتنی جلدی آ جاتے کہ سحری آنحضرتﷺ کے ساتھ فرماتے، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ان کو اپنے حجرہ شریفہ میں بلا لیتے تھے۔ (مسند:5/182)
امراء کو نصیحت اور تبلیغ حق میں ذرہ نہیں ہچکچاتے تھے، جو بات حق ہوتی وہ برموقع ارشاد فرما دیتے۔
اتباع سنت و امر بالمعروف اتباع سنت میں پختگی کا یہ عالم تھا کہ حضرات صحابہ و تابعین میں سے بھی اگر کسی سے ناواقفیت کی بناء پر کبھی خلاف سنت کوئی فعل سرزد ہوجاتا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کو تنبیہ فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت شرحبیل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بازار میں ایک چڑیا پکڑ لی، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دیکھ لیا، پاس جاکر ایک تھپڑ مارا اور چڑیا چھین کر اڑا دی اور فرمایا: “اے اپنی جان کے دشمن! کیا تمہیں معلوم نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ کو حرم قرار دیا ہے؟”
(مسند:5/181،192)
شام سے ایک شخص زیتون کا تیل فروخت کرنے مدینہ لایا، بہت سے تاجروں نے اس سے معاملہ کیا، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے بھی اس سے بات چیت کی اور مال خرید لیا، مال ابھی وہیں رکھا تھا کہ دوسرا خریدار پیدا ہو گیا، اُس نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے کہا کہ اتنا نفع دیتا ہوں مجھ سے سودا کر لیجئے، عقد کو پختہ کرنے کے لیے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھنا ہی چاہتے تھے کہ پیچھے سے کسی نے ہاتھ پکڑلیا، دیکھا تو حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے، اور فرما رہے تھے: ابھی نہ بیچو، پہلے مال یہاں سے اٹھوا لو، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اس کی ممانعت فرمائی ہے۔
(مسند:5/181،192)
(20)دوستانہ تعلقات
آپ رضی اللہ عنہ خلفاء سے دوستانہ تعلقات رکھتے تھے، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اصحاب صحبت میں سے تھے، حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اتنے وسیع تعلقات تھے کہ عثمانی کہلاتے تھے، حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کو نہایت محبوب رکھتے تھے، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی محبوب رکھتے تھے، اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی اچھے مراسم تھے، شام جانا ہو تو ان کے مکان پر تشریف لے گئے۔(مسند:5/182)
وفات حسرت آیات
عمر مبارک کا پچپن(55) یا چھپن(56) واں سال تھا کہ پیام اجل آگیا۔سن 45ھ میں آپ رضی اللہ عنہ نے وفات پائی۔
آپ رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر سن کر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
“آج حبرالامۃ اٹھ گئے۔”
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ تعالیٰ بھی جنازہ میں شریک تھے۔ جب جسد خاکی کو قبر مبارک میں اتارا گیا تو حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے نہایت حسرت سے فرمایا:
“دیکھو علم اس طرح جاتا ہے آج علم کا بڑا حصہ دفن ہو گیا۔”
(سیر اعلام النبلاء، 2/ 439 تا 442)
رضی اللہ عنہ و ارضاہ و جزاہ اللہ عنا و عن جمیع امۃ محمد صلی اللہ علیہ و سلم احسن الجزاء فی الدارین، و صلی اللہ تعالیٰ علی خیر خلقہ سیدنا محمد و علیٰ آلہ و صحبہ اجمعین
گر آپ یا آپ کے جاننے والے بھی اس ادارے سے مستفید ہونا چاہیں تو رابطہ فرما سکتے ہیں۔
ہماری نظریہ ہے کہ ہر شخص کو آن لائن قرآن کی تعلیم اور فہم کی فراہمی سے مساوی دسترس فراہم کی جائے، جس سے ان کی روحانی ترقی اور علمی سطح دونوں میں اضافہ ہو۔
ہمارا مشن آن لائن قرآن کی تعلیم کو آسان اور دستیاب بنانا ہے، تاکہ ہر شخص بغیر کسی مشکل کے قرآن کو سیکھ سکے اور اپنی روحانی ترقی کی راہ میں آگے بڑھ سکے۔